Wednesday 11 March 2020

ساتویں مالیاتی ایوارڈ سے پیچھے ہٹنے کی تیاریاں - Jul 18, 2013

 Thu, Jul 18, 2013 at 10:59 AM
ساتویں مالیاتی ایوارڈ سے پیچھے ہٹنے کی تیاریاں 
 میرے دل میرے مسافر
سہیل سانگی
ابھی اٹھارہویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمدکا انتظار تھاکہ اسلام آبادسے یہ کوشش  شروع ہو کر رہے ہیں کہ اس ترمیم کے تحت بعض محکموں اور وسائل کی مرکز سے صوبوں کو منتقلی کسی طرح سے روک دی جائے۔ اور ساتویں مالیاتی ایوارڈ کو تبدیل کیا جائے۔ایسا کیوں کیا جارہاہے؟ سندھ میں یہ سوال  کیا جارہا ہے۔ اسکی وجہ ایک مرتبہ پھر  وفاقی اداروں میں پنجاب کی  اجارہ داری کی حد تک بالادستی ہے یا  وفاق اپنی پرانی سوچ پر اتر آیا ہے۔یا کوئی تیسرا سبب ہے۔کچھ بھی ہو یہ کوششیں کوئی اچھا شگون نہیں۔ 
 پاکستان میں بعض حلقے اس صورتحال کو سیاسی مظہر قرار دے رہے ہیں۔ اختیارات اور وسائل کی مرکز سے صوبوں کو منتقلی صرف  پاکستان کا مظہر نہیں۔ انڈیا میں بھی مرحلہ وار ایسا کیا گیا ہے۔ جہاں اگرچہ پہلے ہی صوبوں کو زیادہ اختیارات تھے۔  دراصل یہ بدلے ہوئے حالات  میں وقت کی ضرورت ہے۔
 اسلام آباد اور لاہور کے کچھ تھنک ٹینک اخباری  کالموں  اور سرکاری حلقوں میں یہ مہم چلا رہے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو بہت زیادہ اختیاراتا ور  وسائل دے دیئے گئے ہیں۔ اگر مکمل طور پر عمل کیا گیا تو وفاق کے پاس نہ اختیارات بچیں گے اور نہ ہی وسائل۔ ان حلقوں کی یہ بھی دلیل ہے کہ وفاق کی لسٹ جو مشترکہ مفادات کی کونسل کے دائرے میں دی گئی ہے اس سے اس ادارے کی الگ بادشاہت قائم ہوگئی ہے۔ اس سے اس ادارے میں ہمیشہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان دنگل رہے گا۔ ان حلقوں کو اٹھارہویں ترمیم اور مشترکہ مفادات کی کونسل کا رول کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ مگر اس ترمیم کو ختم کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ آئینی معاملہ ہے۔ اب ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ پروسیجرل طریقے سے کچھ چیزوں کو تبدیل کریں کچھ کو روکیں۔ ان حالات میں مشترکہ مفادات کی کونسل اور اسکے ممبران  کی رائے، صلاحیت اور اہلیت کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ 
 عملی طور پر مشترکہ مفادات کی کونسل کی تصدیق یا منظوری کے بغیرپاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے مجوزہ قرضہ حاصل نہیں کرسکتا۔نواز شریف حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت یہ ادارہ پاکستان کو 5.3 ارب ڈالر کا قرضہ دے گا جس سے مالی بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان کی ضمانت ہو جائے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ قرضہ پرانا قرضہ اتارنے کے لیے لیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظوری سے پہلے پاکستان کو بعض شرائط پوری کرنی ہیں اور یہ شرائط مشترکہ مفادات کی کونسل کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ 
آئی ایم ایف کا خیال ہے یا اسلام آباد نے اسے بانور کرایا ہے کہ ساتویں این ایف سے ایوارڈ کے بعد وفاق کے پاس مالی اختیارات اور مالی وسائل نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ مالی ضابطہ(فنانشل ڈسپلن)بھی نہیں قائم کرسکتا۔ اس لیے  آئی ایم ایف اس سے معاہدہ نہیں کرسکتا۔اس لیے عالمی مالیاتی ادارہ چاہتا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل یہ وعدہ کرے۔ یعنی وفاقی حکومت جو معاہدہ کر رہی ہے اس کی تصدیق کرے۔
 آئی ایم ایف کے نئے شرائط میں مالی ڈسپلن، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، صوبوں کو اپنے  مالی وسائل پیدا کرنا، فضول اخراجات اور کم ترجیح والے منصوبے ختم کرنا اور وسائل کی عدم مرکزیت کے لیے مضبوط فریم ورک جوڑنا شامل ہے۔ 
اس آپشن  کے وکیل کہتے ہیں کہ ساتویں این ایف سی یوارڈ کی بڑی خامی یہ ہے کہ یہ بڑے سطح پر معاشی استحکام نہیں لاسکتا۔چونکہ مرکز کے پاس وسائل کم  ہیں  تو اسکا  رول مالی استحکام  میں بھی کم بنتا ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام تب تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک مالی استحکام نہیں قائم ہوگا۔مالیاتی کنٹرول درست نہیں ہوگا۔
 تعجب کی بات ہے کہ کبھی عالمی ادارے کہتے ہیں کہ اختیارات اور وسائل  کی مرکزیت ختم کرو۔ اور یہ دونوں چیزیں بلکل نچلی سطح پر منتقل کرو۔اس کے لیے لمبے چوڑے دلائل دیئے جاتے رہے ہیں اور متعلقہ اداروں کے افسران کی ٹریننگز بھی کی جاتی رہی ہیں اور ان کی سوچ  بھی تبدیل کی جاتی رہی ہے۔ اب کہا جارہاہے کہ واپس مرکزیت لے آؤ۔ اور یہ بھی کہ وسائل کی منتقلی بہت زیادہ اور بہت تیز ہوئی ہے۔  آئیڈیا یہ ہے کہ مجموعی طور پر مالی خسارہ کم کیا جائے اور مالی ضابطہ نافذ کیا جائے۔ صوبوں کو فیصلے میں شامل کرنا  اس لیے بھی ضروری کہ واسئل  ان کے پاس ہی ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تومرکز اکیلاکچھ نہیں کرسکے گا۔
یہ دلیل بھی دی جاتی رہی ہے کہ موجودہ مالیاتی ایوارڈ کی موجودگی میں ملک میں مالی ڈسپلن قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا آئی ایم کی شرائط پوری کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ قرضہ نہیں ملے گا۔
2010ع سے لاگو این ایف سی ایوارڈ  کے بعد بڑی لیول پر معاشی استحکام صوبوں کی ذمہ داری بن گئی ہے۔چونکہ وسائل ان  کو منتقل کردیئے گئے ہیں۔ اب صوبائی حکومت کی مدد اور حمایت کے بغیروفاقی حکومت روینیو کا ٹارگیٹ حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے آئی ایم ایف کے معاہدے کی مشترکہ مفادت کی کونسل سے منظوری ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں صوبوں کی منظوری یا رضامندی ضروری ہے۔ 
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت2010میں صوبوں کو   56 فیصد اور 2011-12 میں 57.5فیصد وسائل ملے۔  
صوبوں پر یہ بھی الزام ہے کہ اتنے وسائل انکو دیئے گئے ہیں ان وسائل کو سنبھالنا اور ٹھیک سے استعمال کرنے کی ان میں اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ صوبوں کے پاس مالی ڈسپلن قائم کرنے کا مکینزم بھی مضبوط نہیں۔ لہٰذا وسائل کے زیاں کا اندیشہ ہے۔
اہلیت، صلاحیت یا مالی ڈسپلن کی بات صحیح بھی ہوسکتی ہے۔ اگر سندھ کا تجربہ سامنے رکھیں۔ صوبائی بیوروکریسی میں حکومت نے سفارشی اور اقربا پروری  کی بنیاد پر ایسے  افسران فیصلہ سازی اور عمل درآمد کی  کلیدی پوزیشنوں پربٹھائے ہیں جن میں نہ پروفیشنلزم ہے، نہ تجربہ اور اہلیت۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ چارون چیزیں سیکھنے  یا حاصل کرنے کا جذبہ بھی نہیں۔ اس کے برعکس یہ صرف مال سمیٹنے کے لیے آئے ہیں۔ صوبائی حکومت سیاسی مصلحت کے بے وزن دلیل کا شکار ہے۔ جس نے  پورے صوبے کے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے آؤٹ آف ٹرن ترقیاں، تقرر، نان کیدر کو کیڈر میں ضم کرنے اور سندھ سول سروسز رولز میں تبدیلی اس بات کی گواہی دیتی ہے۔ 
گزشتہ تین سال کے دوران سندھ حکومت وسائل کے ہوتے ہوئے بھی سالنہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص رقم کا پچاس فیصد بھی خرچ نہ کرسکی۔دیکھا جائے تو حکومت  کے دوستیاں نبھانے اور میرٹ کو کچلنے  کے اقدامات اب صوبائی خودمختاری، اور صوبوں کے وسائل کی منتقلی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انیس بیس دوسرے صوبوں میں بھی یہ صورتحال ہوگی۔
معیشت دانوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت بے پناہ وسائل ملنے سے صوبوں میں اپنے وسائل پیدا کرنے اور مالیاتی ضابطہ قائم کرنے کی خواہش اور مجبوری دونوں ختم ہو گئی ہیں۔ اب صوبے اپنے وسائل پیدا نہیں کر رہے ہیں۔اور وفاق سے ملنے والے حصے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ 
 منصوبہ بندی کے وفاقی ماہرین کا خیال ہے کہاین ایف سی ایوارڈ مالی  بے ضابطگیوں اورmacroلیول کے معاشی عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ جس کو سنبھالنا مشکل ہ و رہا ہے۔ممکن ہے کہ ایسا ہو۔ مگر یہ سب عبوری دور ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرے کا اس کا میکنزم پیدا ہوگا۔ جب وسائل آئیں گے تواس کو استعمال کرنے یا سنبھالنے کی اہلیت  اور تجربہ آئے گا۔دیکھاجائے تو یہ معاملہ گورننس سے منسلک ہے۔چونکہ مجموعی طور پر گورننس کی حالت خراب ہے اس مالیاتی شعبہ بھی  اس کی لپیٹ میں ہے۔ لہٰذا یہ قرار دینا غلط ہوگا کہ این ایف سی ایوارڈ  معاشی ضابطے یا معاشی استحکام سے ٹکراؤ میں ہے۔ 
لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ضمانت والے قرضے کی آڑ میں اٹھارہویں ترمیم سے پیچھے ہٹنے اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کرنے کے جتن  کئے جارہے ہیں اور ایک بار پھر غیر محسوس طریقے سے مرکزیت کو بحال کیا جارہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف کی فرمائش نہ ہو اور وفاقی بیوروکریسی نے آئی ایم ایف کو اس طرح کی تصویر دکھائی ہو، جس کے بعد اس معاملے کو اٹھایا جارہا ہے۔ 
اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ صوبوں کے پاس capacity  نہیں۔ بات یہ ہے کہ جب ان کو وسائل ملیں گے تو اپنے پاس گنجائش اور صلاحیت دونوں پیدا ہونگی۔ اس صورتحال کی آڑ میں صوبوں سے وسائل اور اختیارات  چھیننا  پہیئے کو پیچھے دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔

لیاری سے انتقال آبادی - Jul 14, 2013

Sun, Jul 14, 2013 at 11:19 PM
لیاری  سے انتقال آبادی
سہیل سانگی
پورے سندھ کونقل مکانی  درپیش ہے۔ تھر میں جب قحط پڑتا ہے تو چالیس فیصد سے زیادہ آبادی نقل مکانی کرتی ہے۔ گزشتہ دو سال کی بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کو نقل مکانی  کرنی پڑی۔ ان میں سے ہزاروں افراد آج تک  اپنے آبائی گاؤں نہیں لوٹ سکے ہیں۔ اب میٹروپولیٹن شہر کراچی میں کی قدیم بستی لیاری سے کچھی برادری کے ہزاروں افراد کو گینگ وار اور لاقانونیت سے تنگ آکر اپنے گھر چھوڑ کر ٹھٹہ، بدین، ٹنڈومحمد خان، جھڈو وغیرہ میں پناہ حاصل کرنی پڑی۔ عجب کہانی ہے۔ کراچی دنیا بھر کے بھگوڑوں اور بھٹکتے لوگوں اپنے اندر پناہ دیتا ہے۔ مگر آج اس شہر کے قدیمی باشندے زیر عتاب ہیں۔

سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کے گڑھ اس علاقے کی یہ بھی پہچان رہی ہے کہ نصف صدی تک قومی حقوق اور جمہوری تحریک میں بھرپور کردار ادا کرتا رہا  اور اسی بستی نے کئی نامور ترقی پسند دانشور اور سیاسی کارکن پیدا کئے۔ مگر اب لیاری کا پروفائل بدل رہا ہے۔جرائم، مار  ا ماری،  اور عدم برداشت  اسکی پہچان بن گئی ہے۔اب تو اس میں نقل مکانی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔پیپلزپارٹی کی حکومت اس لیاری کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سمجھنے اور اس کا احساس کرنے میں ناکام رہی۔کوئی سیاسی اور انتظامی اقدامات نہیں کئے گئے۔اب یہاں گینگ اور اور لاقانونیت کی وجہ سے لوگ خود کو سیاسی اور سماجی طور پر غیر محفوظ اور لاوارث سمجھنے لگے ہیں۔
لیاری بلوچوں، کچھیوں اور سندھیوں کی ملی جلی آبادی کا علاقہ رہا ہے جہاں بلوچوں کی اکثریت ہے۔مگر ان  کے درمیان نسلی یا لسانی ٹکراؤ نہیں ہوا۔ کبھی اگر کوئی چھوٹا موٹا ذاتی یا گروہی ٹکراؤ ہوا بھی توبرادریوں کے معززین  مل بیٹھ کر اسکو حل کرتے تھے اور متحارب گروپ واپس شیر وشکر ہوجاتے تھے۔ مگر  لاقانونیت  اور حکومت کی نااہلی ہی نہیں بلکہ کوتاہی اور ناکامی نے اس بستی کو مافیاؤں کی گود میں پھینک دیا ہے۔اب روایتی بندھن ٹوٹ چکے ہیں۔ جھگڑوں اور ٹکراؤ کو حل کرنے کے برادرانہ طریقے ختم ہو چکے ہیں۔ 

تاریخی طور پر سندھ اور کچھ کے علاقے کے  قدیمی تعلقات رہے ہیں۔ اور وہاں کی آبادی سندھ میں آکر آبادہوتی رہی ہے۔ کچھیوں کی بڑی آبادی1850 سے1940 کے درمیان سندھ میں آئی۔  اور سندھ کے مختلف شہروں میں آباد ہوئی۔ کچھی برادری کاایک حصہ قیام پاکستان کے بعد بھی آیا۔ان کی زبان اور ثقافت وہی ہے جو سندھ کی ہے۔آج بھی انڈیا کے کچھ بھوج کے علاقے  کے لوک گیت سندھی میں ہی ہیں۔کچھی برادری کی ذاتیں ہنگورو، سومرو، نہڑے، راہموں، کمبھر، وغیرہ ہیں۔ یہی سندھ کے زیرین علاقے  میں بھی ہیں۔ کراچی میں آباد کچھیوں کو شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری، سندھی لوک ادب اور کہانیاں اسی طرح یاد ہیں جس طرح سندھ کے کسی آدمی کو ہوسکتی ہیں۔ استاد محمد ابراہیم، عبداللہ کچھی اور دیگر گائکار سندھی کے بڑے فنکار بھی اسی کمیونٹی سے پیدا ہوئے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ادبی  خواہ سرکاری حلقوں نے کراچی میں رہنے والی اس لسانی آبادی کو سندھی ثقافت کا حصہ بنانے کی کئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔یہی صورتحال سیاسی، سماجی حوالے سے بھی رہی۔ 

 اس کے علاوہ کراچی میں رہائش، وہاں مارکیٹ کی زبان،  اور وہاں کے رہن سہن نے کچھی برادری کو سندھی ثقافت کا حصہ بننے میں رکاوٹ پیدا کردی۔مہاجر غیر مہاجر کی لسانی سیاست اور لیاری میں لاقانونیت  نے انکو مجبور کردیا کہ وہ اپنی الگ شناخت کرائیں۔کراچی جہاں فتح کرنے اور کنٹرول کرنے کی جو مسلح جنگ چل رہی تھی کچھی برادری بھی اس جنگ میں چلی گئی۔ 

کچھی برادری کی تنہائی نے کراچی میں ایک اور لسانی گروہ کو ابھارا۔ورنہ یہ گروہ سندھ اور بلوچ آبادی کا حصہ تھا۔شمالی سندھ قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے بٹا ہوا ہے۔اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جو سیاسی، سماجی، انتظامی اور ترقی کے حوالے سے پیچیدگیوں سے ہرکوئی بخوبی واقف ہے۔مگر کراچی جو اس سے پہلے لسانی کی سیاست کی وجہ سے مہاجر اور غیر مہاجربنیاد پر بٹا ہوا تھا مگر بلوچ سندھی اور کچھی ایک مشترکہ فریق کے طور پر تھے۔ان میں تضاد پیدا ہوگیا ہے۔یہ تضاد کراچی کے پرانے باشندوں اور مجموعی طور پر سندھ  کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ یہ ایک اور بڑی تقسیم ہے،جو پرانے باشندوں کی صفوں میں ہورہی ہے۔لیاری کو سیاسی اور انتظامی طور سنبھالینے میں ناکامی کی وجہ ایم کیو ایم نے اپنی جگہ پیدا کی۔ اطلاعات کے مطابق کچھی برادری کے ایک حصہ کی ایم کیو ایم  سے قربت ہوگئی ہے۔

دراصل کراچی کے میٹروپولیٹن شہر سے ایک ہی لسانی گروہ  کے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی حکومت کی ناکامی کا ثبوت تو ہے ہی مگر اسکے ساتھ ایک انسانی المیہ پیدا ہوگیا ہے۔

صوبائی حکومت اور پیپلز پارٹی جس کی حکومت ہے اور لیاری جس کا حلقہ انتخاب بھی ہے اس نے اس ضمن میں کوئی موثر اقدامات نہیں کئے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ حکومت اپنے سیاسی خواہ انتظامی و انٹیلیجنس نیٹ ورک کے باوجود اس امر سے بے خبر رہی کہ ہزاروں افراد ایک ہی علاقے سے ایک ہی کمیونٹی کے نقل مکانی کرنے والے ہیں۔پشیگی معلومات نہ رکھنا حکومت کی نااہلی پر ایک اور ٹھپہ ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے حالات کے باوجودپیپلز پارٹی کو اپنی صفوں میں نہ تین سال قبل اور نہ اب کوئی ایک شخص ایسا ملا جس کو محکمہ داخلہ کا قلمدان دیا جاسکے۔ 

 حال ہی میں جب نقل مکانی ہوئی توایسے افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا اس معاملے نہ تعلق ہے، نہ مہارت اور ویزن ہے۔وزیر قانون سکندر مندھرو کا کسی حد تک تعلق بنتا ہے کہ ان کی کچھی برادری سے تعلق داری ہے۔ باقی تین افراد کی نہ لیاری میں، نہ حکومت میں اور نہ ہی عام لوگوں میں کوئی  سے ہے۔ جس کو دیکھتے ہوئے لوگ ان کی بات مان لیں یا ان کی سفارشوں کو وزن مل سکے۔ لگتا ہے کہ حکومت نے خانہ پوری کے لیے کمیٹی بنائی ہے۔ 

کمیٹی کے ممبران جب متاثرہ افراد سے ٹھٹہ اور بدین میں ملے تو  تو انہوں نے حکومت کی طرف سے جاری کردہ پانچ  پانچ  ہزار روپے فی خاندان کی امداد لوٹا دی۔وزیرقانون کے ضلع بدین میں چاول کی دیگیں پکا کر متاثرین کو دی گئیں تو انہوں نے کہا کہ ہمیں چاول نہیں چاہئے، امن چاہئے تاکہ ہم واپس گھروں کو جاسکیں۔ سکندر مندھرو کے ہی ضلع میں متاثرین نے ایک درگاہ کے پاس کیمپ لگا کر پانہ لینے والے متاثرین کو انتظامیہ  نے اٹھادیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کمیٹی کتنی موثر ثابت ہوگی۔ 

اس صورتحال میں وفاقی حکومت کو بھی موقعہ مل گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی سیکریٹری داخلہ اور انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کو کراچی بھیجا کہ وہ صورتحال کے بارے میں رپورٹ پیش کریں۔گزشتہ ایک ماہ کے دوران وفاقی حکومت تین مرتبہ تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کہ چکے ہیں کہ اگرچہ امن وامان وبائی معاملہ ہے مگر انہیں موقعہ دیا جائے تو وہ حالات ٹھیک کرسکتے ہیں۔چوہدری نثار علی خان نے کیا سوچ کے یہ بات کہی ہے؟ کیا وفاق صوبائی حکومت کو ہٹاکر صوبے میں گورنر راج لاگو کرکے یا کسی دوسرے ایسے اقدام سے معاملات نمٹانا چاہ رہے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کو درخواست کرے کہ وہ  اسکی مدد کے لیے آئے۔جیسا کہ نوے کے عشرے میں مظفر حسین شاہ کے دور حکومت میں کیا گیا تھا۔کیا چوہدری نثار وفاقی اداروں کو اس کا م میں ملوث کرنا چاہتے ہیں؟

سندھ کے معاملات خاص طور پر کراچی کے حوالے سے وفاق کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔نواز شریف کی حکومت نے کراچی میں آپریشن کیا۔اس کے بعد بینظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر نے ڈنڈا گھمایا۔مشرف دور تو ویسے بھی وفاق کا ہی تھا۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک وفاق کے نہیں بلکہ سندھ کے وزیرداخلہ تھے۔ ویسے بھی سندھ حکومت کو  توفیق نہیں ہوئی کی کسی کو وزیرداخلہ مقرر کرتی۔

 ان روایات کو دیکھتے ہوئے اگر نواز شریف حکومت ایسا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے دو تین بار سوچنا چاہئے۔ کیونکہ کسی ایک صوبے میں عدم استحکام صرف اس صوبے تک محدود نہیں رہتا۔اگر زلزلے کا مرکز کراچی بنتا ہے تو اسلام آباد بھی اسکے جھٹکوں سے بچ نہیں سکے گا۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے گزشتہ حکومتوں میں یہ تجربے ہم دیکھ چکے ہیں۔ 

سیکیورٹی پالیسی - Jul 11, 2013

 Thu, Jul 11, 2013 at 11:29 AM
سیکیورٹی پالیسی 
میرے دل میرے مسافر۔۔۔ سہیل سانگی  
ابھی قومی سلامتی پالیسی مرتب کرنے کے لیے حکومت مشاورت کر رہی تھی کہ میڈیا نے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ”لیک“ ہوگئی۔اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد نئی قومی سلامتی پالیسی بنانے کی  اہمیت اور بھی بڑھ گئی  ہے۔ نئی  قومی سلامتی پالیسی بنانا کوئی آج کی بات نہیں۔18 دسمبر 2008ع کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے امور داخلہ  رحمان ملک نے ایوان کو بتایا تھا کہ حکومت نئی نیشنل سیکیورٹی پالیسی مرتب کرنے جارہی ہے۔ جو نئے چیلینجز کا مقابلہ کر سکے۔تب مسلم لیگ (ن) کے لیڈر احسن اقبال نے رائے دی کہ سعودی ماڈل  پر سیکیورٹی پالیسی بنائی جائے۔رحمان ملک کا کہنا تھا کہ حکومت سری لنکا کی پالیسی کا بھی مطالعہ کر رہی ہے۔ اس بات کو پانچ سال ہو گئے۔ مگر کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی۔
 مسلم لیگ (ن) حکومت نئی قومی سلامتی پالیسی مرتب کرنے جا رہی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق  ایک مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جس پر سیاسی اور عسکری قوتوں سے مشاورت کی جارہی ہے۔ وزیر داخلہ  چوہدری نثار علی نے کہا ہے کہ پارلیمان میں نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر بحث کی جائے گی اور اس اجلاس میں آرمی چیف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں اور چاروں وزراء اعلیٰ کو شرکت کی دعوت دی جائے گی ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے یہ کہہ کر  اس اجلاس میں شرکت  سے معذوری ظاہر کی کہ وہ ان دنوں بیرون ملک ہونگے۔ تاہم ان کی غیر موجودگی میں  پارٹی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ان کی نمائندگی کریں گے۔ اب حکومت  نے قومی سلامتی پالیسی پر مجوزہ کل جماعتی کانفرنس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی ہے۔
 حیرت کی بات ہے کہ ایک عرصے سے   جاری شدت پسندوں  کی کارروایوں نے ملک کومعاشی خواہ سیاسی حوالے سے تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے، ہماری سیکیورٹی کو درپیش ان سنگین چیلینجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مربوط پالیسی نہیں۔ 
یہ اچھی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت جاگ اٹھی ہے اور وہ نئی نیشنل سیکیورٹی کی پالیسی مرتب کرنا چاہ رہی ہے۔کیا یہ حکومت ایسی مربوط اور موثرپالیسی بنا پائے گی جو ملک کی سلامتی کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کو اب گڈمڈ ہوگئے ہیں ان کا سدباب کرسکے؟ اس پالیسی میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز سیاسی، فوجی قوت کے علاوہ بعض خارجی یا بیرونی اثرات بھی رہے ہیں۔ان سب کی رائے کو کس طرح سے سمویا جائے گا یہ بہت بڑا چیلینج ہے۔
قیام پاکستان سے لیکر قومی سلامتی کا معاملہ فوجی اسٹبلشمنٹ کا دائرہ کار رہا ہے۔ اب تک  جو پالیسی یا حکمت عملی  رائج رہی ہے  اسکا بنیادی نقطہ بیرونی خطرات رہے ہیں۔اب بھی روایتی پالیسی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ جاری ہے۔ مخلف حلقوں میں  یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ نئی پالیسی کا فوکس بھی  اسی طرح سے رہے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا تبدیل شدہ حالات میں ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی۔کیونکہ اس کی وجہ سے بعض موقعوں پر سیکیورٹی سسٹم کی ناکامی سامنے آئی ہے۔
 ملک کو سیکیورٹی کے سے مختلف النوع مسائل درپیش ہیں جودراصل ناقص حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ دہشتگردی اور شدت پسندی کو امن امان کا مسئلہ قرار دے کر اس سے محدود طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ایک جامع حکمت عملی بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس میں دفاع، خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسیوں کا امتزاج ہو۔یہ تینوں اجزاء نیشنل سیکیورٹی پالیسی کے انتہائی اہم ہیں۔ ملک کو دہشتگردی، بغاوت اور انتہاپسندی کے خطرات سامنا ہے۔ فاٹا،  خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں کیا ہو رہا ہے؟اس کے اسباب، محرکات اور طریقہ کار کو نظر میں رکھنا ہوگا۔
 اب ضروری ہوگیاہے کہ ایک موثر اور مربوط سیکیورٹی پالیسی بنائی جائے۔بیرونی خطرات اپنی جگہ پر پر معاشی بحران اور سیکیورٹی کے کمزور ہونے کے معاملات بھی اتنے ہی اہم ہیں۔یہ حقائق بھیزیر نظر ہونے چاہئیں کہ متواتر عدم استحکام نے معاشی ترقی کو  توڑ کے رکھ دیا ہے۔ داخلی طور پر ہنگاموں کی وجہ سے قانون کی حکمرانی تیزی سے سکڑ رہی ہے۔کئی علاقوں پر حکومت کا کنٹرول کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر کراچی لاقانونیت کا شہر بنا ہوا ہے۔روز ایک درجن افراد کا قتل معمول ہے۔یہاں مسلح گروہ ا پنی  بالادستی  کے لیے لڑ رہے ہیں۔اور انہیں مختلف پارٹیوں کی سرپرستی حاصل ہے۔دوسری طرف ملک  کی پہچان جہادیوں کی نرسری کے طور پرہوگئی ہے جس سے نہ صرف  خود ملک کو بلکہ علاقے کی  استحکام کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ہمارا ملک عرب  ممالک اور ایران  کے بیچ میں پراکسی جنگ کا ایک عرصے تک مرکز رہا۔ جس سے فرقہ واریت کو ہوا ملی۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق بعض بنیاد پرست گروپ جہادی بھرتی کر رہے ہیں جو شامی باغیوں کے ساتھ ملکر لڑیں گے۔ یہ وہ علامات ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ریاست اپنا کنٹرول کھو رہی ہے۔  

پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت  نے تین  نکاتی غیر حقیقی فارمولا  ترقی، کچلنا اور مذاکرات متعارف کرایا۔ یعنی  الجھے ہوئے تضادات یا بحرانوں کو سمجھے بغیر کچلنا۔ یہ مشرف کی پالیسی کا تسلسل تھا۔ ہم اپنے ہاتھوں سے پیدا کئے ہوئے بحرانوں کو تسلیم کرنے کے عادی نہیں ہیں لہٰذا ہم غیرملکی علاج ڈھونڈتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت چینی اور ملائشیا کے ماڈل پر پانچ نکاتی پالیسی  بنانے جارہی ہے۔ 
زمینی حقائق یہ ہیں کہ معاشی طور پر کمزور سیاسی طور پر غیرمستحکم، لسانی طور پر بٹاہوا  ملک جہاں فرقہ واریت بھی  ہے۔حکمرانوں  یہ ماڈلز کاپی کرنے سے پہلے ان عوامل کو سوچنا چاہئے تھا۔پاکستان چین کی طرح معاشی طور پرطاقت نہیں۔ اور نہ ہی  معاشی طور پر  ملائشیا کی طرح خود کفیل۔ ان دونوں ممالک  میں نہ لسانی  جھگڑا ہے اور نہ سیاسی بحران اور نہ ہی انکو انتہا پسندانہ تشدد کا تجربہ ہے۔
 بعض معاملات ملک  میں بے چینی  اور تضادات کا باعث بنے رہے ہیں، اگرآج کے اندرونی تضادات کا جائزہ لیا جائے تو یہ  بنیادی نکات بنیں گے۔ انتہا درجے کی مرکزیت، صوبوں کے درمیان تضادات اور عدم مساوات، صوبوں کے وسائل پر انکا حق ملکیت تسلیم نہ کرنا، فیصلہ سازی میں صوبوں کو دور رکھنا، مذہب کو سیاست اور حکومت کا دائرہ عمل میں رکھنا۔
 خیبر پختونخوا  اور فاٹا کے بحران اور بلوچستان کی بے چینی کومختلف پالیسی کی ضرورت ہے۔ جبکہ فرقہ واریت کو نمٹنے کے لیے  ملکی اور عالمی سطح پر کوشش لینے کی ضرورت ہے۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہزاروں لوگوں کے قتل، املاک کے نقصان ہماری قیادت تسلیم نہیں کرتی کہ یہ موجودہ معاشی اور سیاسی تضاد ہے۔ 
 بلوچستان کے معاملے میں سیاسی و عسکری قوتوں کو  سب سے پہلے اس تصادم اور تضاد کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور اس کو حل کرنے کے لیے بلوغت کا مظاہرہ تے ہوئے کھلے ذہن سے دیکھنا پڑے گا کہ کون کون سے آپشنز ہیں۔ اور مضبوط ارادہ کا مظاہرہ کرنا پڑے گا کہ اس کو حل کرنا ہے۔
 سندھ کا معاملہ کہیں مختلف  ہے۔ کراچی میں مختلف مافیاسرگرم ہیں، جن کے پاس اب صرف اسلح کی ہی طاقت نہیں ہے بلکہ سیاسی طاقت بھی ہے۔یہاں شدت پسندی اور سیاست آپس میں یوں گڈ مڈ ہوگئی ہیں کہ ان کو الگ کرنا اور سمجھنامسئلہ ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سندھ کے صوبائی حقوق کا بھی معاملہ ہے۔
تصادم کے حل یا بحران کو حل کرنے کی دو شرائط ہیں۔ اس کومانا تسلیم کیا جائے اور کھلے ذہن کے ساتھ آپشنزپر غور کیا جائے۔  پالیسی  اور اپروچ میں جب اس کو سمجھنے اور اس کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا جائیگا تواس طویل بحران کو حل کرنے کی کوششیں رائگاں ثابت ہوگی۔گورننس اورترقی کے معاملات کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کی پالیسی میں یہ نقطہ بھی اہم ہے کہ اس دائرے میں منتخب نمائندوں یعنی پارلیمان کی حیثیت اور بالادستی کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس حقیقت سے نہیں کترانا چاہئے کہ انتہا پسندی اور تشدد ہماری سیاسی وعسکری حکمت عملی کی غلطیوں کا شاخسانہ ہیں۔ تعمیری پالیسی یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں اور موجودہ بحران ساتھ ساتھ مختلف اسٹیک ہولڈرز کو بھی تسلیم کیا جائے۔

دیوار سندھ: لاوارثی کی جیتی جاگتی تصویر- Jul 7, 2013

 Sun, Jul 7, 2013 at 10:52 PM
 دیوار سندھ:  لاوارثی کی جیتی جاگتی تصویر
سہیل سانگی
 یونیسکودیوار سندھ کے طور پر مشہور رنی کوٹ کو عالمی ورثہ قرار دینے کی تجویز رکھتا ہے مگردنیا کا سب سے بڑا قلعہ حکومت کی لاپروائی اور اہلکاروں کی کوتاہی کی وجہ سے لاوارثی کی  جیتی جاگتی تصویر  بنا ہواہے۔گزشتہ ہفتے اس عظیم ورثے کا دورہ کرنے  کے موقعہ ملا  تو چند چونکا دینے والے حقائق سامنے  آئے۔سیاحوں کے لیے  نہ کوئی گائیڈ اور نہ پینے کے پانی کی سہولت نہ  بیٹھنے کی جگہ موجود ہے۔ 
انڈس ہائی وے پر مشہور مقام سن سے جنوب مغرب میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے کارو جبل میں یہ قلعہ  ہے۔ آثارقدیمہ کے ماہرین کے مطابق  رنی کوٹ سوا بیس کلومیٹرپر پھیلا ہوا ہے دنیا کے ان قلعوں میں سے ہے جن کو ابھی تکپراسرار بناہوا ہے۔قلعہ تک رسائی کے لیے سن سے تیس کلومیٹرپختہ سڑک موجود ہے۔
اسلام سے پہلے ساسانی دور میں یہ جگہ موجود تھی۔ محمد بن قا سم کے سندھ پر حملے کے وقت یہاں بدھ مت والوں کی اکثریت تھی۔ خاص طور پر  نیرون کوٹ سیوستان۔ سیم کے قلعوں میں ان اثر تھا۔چونکہ وہ لوگ جنگ  سے نفرت کرتے تھے۔ اور برہمنوں کے تسلط  سے عاجز تھیاس لئے عربوں طرف ان کا رویہ مخالفانہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ نیرون کوٹ کا ”شمنی“  محمد بن قاسم  کی آمد سے پہلے  ہی ابھرتی ہوئی نئی طاقت  بغداد سے پروانہ حاصل کر چکا تھا اور محمد بن قاسم کی آمد کے وقت اس پر قلعے کے دروازے کھول دیئے تھے۔
 دنیا کے اس عجیب قلعے  کے متعلق تھوڑا سا ذکر انگریزوں کی آمد   کے بعد ملتا ہے۔ بعض محققین کا اس کو ستھیوں  یا پارتھیوں کا کام قرار دییتے ہیں۔  نئی تحقیق کے مطابق  نیرون کوٹ  جس کا ذکر تاریخ میں اکثر ملتا  ہے وہ یہی قلعہ ہے۔
ساسانیوں کا یہ تعمیر کردہ یہ قلعہ فن تعمیر کا نمونہ  ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ  اور تہذیب کے کئی ادوار اپنے سینے میں چھپائے ہوئے  ہے۔ قبل مسیح کے دور کے بعد عرب فتح کا زمانہ، مغل دور اور تالپور دور میں بھی  وقت کے حکمرانوں  کے زیر استعمال رہاہے۔رنی کوٹ قلعے کے اندر  میری کوٹ اور  شیر گڑھ کے نام سے دو اورچھوٹے قلعے ہیں۔ ان دونوں چھوٹے قلعوں کے دروازے رنی کوٹ کے دروازوں جیسے ہیں۔۔ فوجی نقط نگاہ سے میری کوٹ محفوظ پناہ گاہ ہے۔ جہاں رہائشی حصہ زنان خانہ، کچھ فوج کے رکھنے کا بندوبست بھی ہے۔

 اس تاریخی مقام سے کئی تاریخی واقعات منسوب ہیں جن میں سے بیشتر پر ابھی مستند تحقیق ہونا باقی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھاس قلعہ کے اندر مختلف مقامات  سے کئی دیومالائی کہانیاں بھی منسوب ہیں۔  قلعے کے اندر مغربی  حصے سے پھوٹنے والا چشمہ ہے جس کو پریوں کا چشمہ کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ  پونم رات یعنی چاند کی 14 تاریخ کو یہاں  پریاں  نہانے آتی ہیں۔

صدیوں پرانے اس تاریخی مقام کے لیے محکمہ آثار قدیمہ خواہ سیاحت کی جانب سے کوئی بندوبست نہیں۔ بلکہ کوئی  ایک ملازم بھی مقرر نہیں جو اس قلعہ کی حفاظت تو دور کی بات نظرداری کرے۔

قلعہ اب محکمہ ثقافت کے ماتحت ہے مگر یہ محکمہ بھی اس کی وارثی نہیں کر رہا۔اتنے بڑے ورثے کی رکھوالی کے لیے محکمے کے پاس ایک بھی ملازم نہیں ہے اور یہ لاوارث بنا ہوا ہے۔ جب محکمہ آثار قدیمہ وفاقی حکومت کے ماتحت تھاتب ایک چوکیدار مقرر تھا۔ اس کے ریٹائر ہونے کے بعد کسی کو بطور چوکیدار مقرر نہیں کیا گیا۔قلعہ کا دورہ کرنے کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ محکمہ ثقافت کی نہ اس تاریخی مقام سے دلچسپی ہے اور نہ کوئی افسریہاں آتا ہے۔ 

مختلف دیواریں جو پہلے ہی خستہ اور زبون حالت میں تھیں ان کو گزشتہ دو سال کی بارشوں نے مزید زبون کردیا ہے۔  میری کوٹ، شیر گڑھ اور خود اصل قلعہ کی جنوبی دیوار بہت کمزور ہو چکی ہے جو کہ پوری توجہ سے مسلسل مرمت کی طلبگار ہیں۔ 

 وزیٹرس کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ سیاحوں کے لیے کوئی گائیڈ موجود نہیں۔ کوئی شیڈ ہے نہ بیٹھنے کی جگہ اور نہ  ہی واش روم وغیرہ کی سہولت ہے۔80 کے عشرے میں میری کوٹ میں ضلع کونسل نے  ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا تھا۔ جو  اب زبون حال ہے، اس کی چھت گر چکی ہے۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس کے باوجود درجنوں سیاح آتے ہیں۔

رنی کوٹ کے اندر حکومت نے میری کوٹ تک پختہ سڑک تعمیر کرائی تھی۔ یہ روڈ تو ٹوٹ چکا ہے مگر اس پر  دو پلیں جو برساتی نالے کو کراس کرتی ہیں دس سال سے زیر تعمیر ہیں۔ اور باقی 80 یا 85 فٹ تعمیر باقی ہے جہاں پر یہ کام روک دیا گیا ہے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار اور حکومت کے درمیان تنازع کے بعد معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔  نہ عدالت سے فیصلہ آرہا ہے۔ نہ  حکومت کوئی پیش رفت کر کے معاملے کو نمٹا رہی ہے۔ 

قلعہ کے اندرناجائز تجاوزات ہونے لگی ہیں۔مقامی آبادی ٹریکٹر گھما کر سائٹ کو نقصان پہنچا  رہی ہے۔  میری کوٹ کے قریب زیر تعمیر پل کے پاس بدھ دور کی سائٹ پر دو کمرے تعمیر کئے جارہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر ایک مقامی باثر شخص ہوٹل تعمیر کرنا چاہ رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ سیاحت کے فروغ کے لیے محکمہ کسی کو 500 فٹ زمین بھی دینے کے لیے تیار نہیں مگر غیرقانونی طور پر لوگ کئی ایکڑ پر قبضہ کر رہے ہیں۔

میری کوٹ سے مغرب میں گبول قبیلے کا ایک گاؤں قلعے کے اندر واقعہ ہے۔  یہ لوگ یہاں پر چھوٹی موٹی کاشتکاری بھی کرتے ہیں۔

میں نے نئے سال کے سندھ بجٹ کے صفحے پلٹ  کے دیکھا مگرسالانہ ترقیاتی پروگرام میں رنی کوٹ کا نام تک نہیں تھا۔حالانکہ صوبے میں تین محکمے ثقافت،  قومی ورثہ اور سیاحت ایک جیسا ایجنڈا لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن  ان محکموں کے ذمہ داران کو رنی کوٹ نظر نہیں آتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ  اس حیرت انگیز مقام  کو نیسکو کی عالمی ورثے کی فہرست شامل کرنے کے لیے مطلوبہ چیزیں مکمل کی جائیں اور اس ورثے کو محفوظ کرنے اور اسے مزید نقصان سے بچانے کے لیے اقدامات کئے جائیں 

سندھ میں انتظامی افراتفری - Jul 4, 2013

Thu, Jul 4, 2013 at 7:40 AM
سندھ میں انتظامی افراتفری
میرے دل میرے مسافر 
 سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا پہلا مہینہ سخت گزرا اس سے لگ رہا ہے کہ گزشتہ دور  حکومت پارٹی کو گلے پڑا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مئی کو عہدے کا حلف اٹھایا۔ اور اس کے بعد سات رکنی کابینہ تو تشکیل دی مگروزراء کو قلمدان نہیں حوالے کئے گئے۔ تین ہفتے تک  ساتوں وزراء بے قلمدان رہے۔ اس بارے میں سندھ حکومت اور پارٹی دونوں کوئی قابل  فہم توضیح نہیں دے سکے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کا انتظار کر رہی تھی۔ بلکہ ابھی تک بھی کررہی ہے۔ جبکہ دوسری رائے یہ تھی کہ پارٹی اندرونی اختلافات کی وجہ سے نہ کابینہ مکمل کر سکی ہے اور نہ ہی کئی ہفتوں تک وزراء کو قلمدان دے سکی ہے۔ پارٹی نے کسی اندرونی اختلافات کی تردیدکی۔ اس عرصے کے دوران  پچاس سے زائد محکمے وزیر اعلیٰ  سندھ کی زیر نگرانی رہے۔ جس کی وجہ سے انتظامی امور اور روز مرہ کی فیصلہ سازی تعطل کا شکار رہی۔صوبے میں انتظامی افراتفری قابل دید تھی۔ یہ صورتحال بڑی حد ابھی بھی جاری ہے۔ صرف سات محکموں کو وزراء مل سکے ہیں باقی تمام محکمے بغیر وزیر کے چل رہے ہیں۔  
اگرچہ پیپلز پارٹی اکثریت میں تھی مگر اس کے باوجود  پہلے روز ہی سے پارٹی نے ایم کیو ایم  حکومت کو حکومت میں شمولیت دی۔ جس کا تاحال یہ جماعت کوئی مثبت جواب نہیں دے سکی ہے۔ سندھ حکومت میں شامل ہو یا نہ ہو؟ متحدہ قومی موومنٹ ابھی تک یہ فیصلہ نہ کر سکی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ  ایم کیو ایم حکومت میں شمولیت سے متعلق فیصلہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے نہیں کر سکی ہے۔ اس حکومت میں شامل ہو یا نہ ہو اس سوال پر ایم کیو ایم نے  پارٹی میں ریفرینڈم بھی کرایا۔ جس کے نتائج کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ سابق اتحادی جماعت نے معاملہ التوا میں ڈال دیا اور اسکے بجائے مسلم لیگ (ن) سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی۔خاص طور پر عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات جس رخ میں جارہی تھی کہ اس میں پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کو ملوث کیا جا رہا  ہے، اس میں وہ حکومت پاکستان کی مدد چاہتی تھی۔ ایم کیو ایم قیادت کا خیال تھا  چونکہ نواز لیگ کو سنیٹ میں اکثریت حاصل نہیں اور سندھ میں وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حکومت پر چیک رکھنے کے لیے کسی آلے کی ضرورت پڑے گی۔ لہٰذا وہ یہ کام آسانی سے کر سکتی ہے۔ مزید یہ بھی کہ آئندہ چند ماہ بعد ہونے والے صدارتی انتخاب میں بھی  ایم کیو ایم  نواز لیگ کے کام آسکتی ہے۔ 
پیپلز پارٹی ابھی تکحکومت میں شمولیت کے لیے اپنی سابق اتحادی کی راہ دیکھ رہی ہے۔ اور گاہے بگاہیاپنی پیشکش کو دہرا رہی ہے۔ بلدیاتی نظام ایم کیو ایم  اپنے لیے زندگی اور موت کا معاملہ قرار دیتی رہی ہے۔دونوں اتحادی جماعتوں نے صوبے میں نیا بلدیاتی نظام دیاجس کی سندھ کے وسیع تر حلقوں نے شدید مخالفت کی۔ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی گیا۔ اس اثناء میں پیپلز پارٹی کا دور حکومت بھی ختم ہونے کو آیا۔ بالکل آخری دنوں میں  پیپلز پارٹی نے یہ نظام ختم کیا جس نے ایم کیو ایم کے لیے راہ بنائی کہ وہ اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھے۔ لہٰذا ایم کیو ایم نے آخری چند ہفتے اپوزیشن میں گزارے۔دوبارہ حکومت بنانے کے بعد پیپلز پارٹی نے مشرف کا بلدیاتی نظام  ختم کرکے 1979ع کا بلدیاتی نظام رائج کرنے کی بات کی لیکن اس کے ساتھ ایم کیو ایم کے لیے دروازہ کھلا رکھا کہ اس قانون میں اتحادی جماعت کی ایماء پر ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ اب گزشتہ ہفتے  باقاعدہ  1979 کا بلدیاتی نظام رائج کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم اس کے باوجود   صوبائی حکومت میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس پیشکش کا سیاسی جواب دینے کے بجائے اس حکومتی فیصلے کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ کے معاملات سیاسی طور پر خواہ انتظامی طور پر تعطل کا شکار ہیں۔ نہ ایم کیو ایم حکومت میں آئی ہے اور نہ کابینہ مکمل ہو سکی ہے۔
بعض وفاقی وزراء کے بیانات  سے یہ تاثر ملا کہ وفاقی حکومت امن و امان  کی آڑ میں صوبے میں مداخلت کرنا چاہتی ہے۔ ان بیانات نے صوبائی حکومت کی سیاسی طور پر پوزیشن مضبوط کی۔اس کے علاوہ  سندھ ہائی کورٹ کے ایک بینچ کے ریمارکس  نے بھی اس تاثر کو مضبوط کیا۔ اور پیپلز پارٹی یہ کہنے لگی کہ گورنرراج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں  اور ابھی پارٹی نے حکومت بنائی ہے تو ابھی سے اس کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ وفاق کا یہ رویہ کسی طور پر بھی قابل تحسین نہیں تھا۔ جس کو سندھ کے مختلف حلقے تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران صوبے میں پانی کی شدید قلت رہی۔ پنجاب اس قلت کے باوجود چشمہ جہلم لنک کینال  سے پانی لیات رہا۔ جبکہ  معاہدے کے مطابق یہ کینال صرف مون سون میں تب چلانا ہے جب سیلابی صورتحال ہوگی اور سندھ  کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ صوبائی حکومت اس معاملے کو موثر طور پر  پانی کی تقسیم کے ذمہ دار ادارے ارسا اور وفاقی حکومت کے پاس نہیں اٹھا سکی۔ 
 وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں  حکومت کا ایجنڈا دیتے ہوئے کہا تھا کہکشمور سے لیکر کراچی تک امن قائم کیا جائے گا۔ بدامنی کا خاتمہ کیا جائیگا۔ جبکہ صحت اور تعلیم حکومت کی ترجیحات ہیں۔ امن وامان  کی یہ صورتحال ہے کہ کراچی میں ٹارگیٹ کلنگز جاری ہیں،اندرون سندھ ڈاکے، اغوا کی وارداتیں عام ہیں۔ بلکہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق ان وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 
صوبائی بجٹ بھی قابل ستائش نہیں۔ اس بجٹ میں غیر مساوی ترقیاتی منصوبے رکھنے کی وجہ سے پسماندہ علاقے نظرانداز کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اتنے بڑے ترقیاتی پروگرام کے لیے  صوبے کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ ہی صوبائی مشنری میں صلاحیت۔ صوابئی مشنری کی صلاحیت کایہ عالم ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران سلانہ ترقیاتی منصوبوں کی نصف رقم بھی خرچ نہیں ہوپائی۔
ؓپیپلز پارٹی نے گزشتہ دور حکومت کے آخری ایام میں  نئی بھرتیوں کی دیگ چڑھائی تھی۔ چالیس ہزار بھرتیاں قوائد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی تھیں۔ اب حکومت کے پاس  ان ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے ہی نہیں۔گزشتہ مرتبہ صوبائی حکومت نے نہ صرف بڑے پیمانے پر اور غیر قانونی طریقے سے بھرتیاں کیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آؤٹ آف ٹرن  ترقیاں بھی دیں۔ نان کیڈر افسران کو کیڈر میں ضم کیا گیا۔  وزراء اور اسمبلی ممبران کے رشتہ داروں کو ضوابط توڑ کر اچھے محکموں میں ملازمتیں دی گئیں۔ اب یہ دونوں معاملات  سپریم کورٹ کے پاس زیر سماعت ہیں۔ جہاں حکومت سندھ کچھ وقت کی مہلت مانگ رہی ہے۔ 
 اعلیٰ عدلیہ  کی جاب سے صوبے کے انتظامی امور یعنی گزشتہ دور کی بھرتیوں، ترقیوں اور تقرریوں پر احکامات اور ریمارکس پر سندھ حکومت پریشان ہے۔۔اس  عدالتی کارروائی سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ عدلیہ پہلے وفاق میں اور اب سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف  فیصلے سنا رہی ہے۔  لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ  پیپلز پارٹی  کے گزشتہ دور حکومت کے فیصلے ایسے تھے جو میرٹ پر پورے نہیں اترتے تھے۔ اب حکومت سندھ اپنا پورا  وقت  ان غلط فیصلوں کا تحفظ کرنے میں صرف کر رہی ہے۔ اور صوبے کے عوام کو تاحال کچھ نہیں مل سکا ہے۔ 

نئے چلینجز اور پرانی ٹیم نواز شریف - Jul 2, 2013



Tue, Jul 2, 2013 at 11:11 AM
نئے حقائق اور نواز حکومت
میرے دل میرے مسافر 
سہیل سانگی 
انتخابات سے پہلے میاں نواز شریف ملک کی معیشت، معاشی و سیاسی صورتحال، خارجہ پالیسی وغیرہ کے بارے میں  بلند بانگ دعوے ک کئے تھے۔ کچھ وعدے کئے تھے۔ کچھ کرنے کچھ نہ کرنے کی بات کی تھی۔ مگر جو بجٹ دیا وہ عوام کی توقعات سے بالکل برعکس تھا۔اس بجٹ میں نواز شریف نہیں،وزیر خزانہ ہی  نظر آرہے تھے۔ یہی صورتحال سیکیورٹی پالیسی کے حوالے سے ہے۔ ان دو  اہم معاملات کے مطالعے سے پت دو باتیں عیاں ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ حکومتی پالیسیوں پر نواز شریف کی کمانڈ نہیں۔ کوئی اور ان معاملات کو دیکھ رہا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ بحران  کا تعلق ملک کے معاشی حالات اور دہشتگردی  یا سیکیورٹی کے معاملات  جو خارجہ پالیسی سے ہے۔ جن پر ہے۔گورننس کا اشو اہم ہے لیکن اسکا نمبر ان دو کے بعد آتا ہے۔ اگر حکومت ان دو معاملات کو ٹھیک کر لیتی ہے تو عام لوگوں کو رلیف مل جاتا ہے۔صرف گورننس کے ذریعے بہت کم رلیف مل سکتا ہے۔ 
دوسری بات یہ نظر آئے کہ میاں صاحب کو ملک کی موجودہ صورتحال کا  صحیح ادراک نہیں۔ وہ ملکی حالات کو12اکتوبر1999ع پر ہی دیکھ رہے ہیں۔ یعنی جہاں انہوں نے ملک کو چھوڑا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان 14 برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ علاقے کی صورتحال تبدیل ہوئی ہے۔میاں صاحب کے زمانے میں پاکستان امریکہ کے لیے غیر اہم بن چکا تھا۔ لیکن اس کے بعد نائین الیون کا واقعہ ہوا۔افغانستان اور عراق میں بہت کچھ تبدیل ہوا۔ پاکستان ایک بار پھر امریکہ کا ساتھی بنا اور اس نے امریکہ کی ایماء پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوا۔اب صورتحال یہ ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے واپس جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد اگرچہ افغانستان  اور علاقے میں پاکستان کا اہم رول بنتا ہے مگر امریکہ پاکستان کو یہ رول دینا نہیں چاہ رہا۔اس کے بجائے بھارت کو اہمیت دینا چاہ رہا ہے۔ افغانستان کے اندر امریکی کارروایوں کے نتیجے میں شدت پسندپاکستان کی طرف آگئے۔جہاں پر ن کے نصف درج گروپ کام کررہے ہیں۔ انکا ٹارگٹ اب صرف امریکہ ہی نہیں پاکستان بھی بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے واقعات میں پھنسا ہوا ہے۔ اور آئے دن کسی نہ کسی شہر میں واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کی اندرونی سیکیورٹی کا معاملہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ 14 سال کا عرصہ بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں ہمارے پڑوسی ممالک بھارت، چین، اور ایران کی پالسیوں اور ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔پاکستان  دس گیارہ سال سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے۔ لیکن اب یہ جنگ دلدل بن چکی ہے جس میں ہم پھنس چکے ہیں۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے ایک ویزن، چاہئے اور اتنی جرئت بھی۔مزید یہ کہ فیصلے کی قوت بھی۔اس صورتحال میں سیاست بازی نہیں چلے گی۔ بلکہ اس طرح کے فیصلے کی قوت جو برطانوی رہنماچرچل اور  فرینچ لیڈرڈیگال نیدکھائی تھی۔انہوں نے اپنا یا اپنی پارٹی کا سیاسی فائدہ دیکھے بغیر فیصلے کئے تھے۔ 
ملک کے اندر بھی سیاسی خواہمعاشی اور سماجی حوالے سے کئی نئے مظاہرسامنے آئے ہیں۔نئے حقائق نے جنم لیا ہے۔ اب نئے دور کے نئے چلینج ہیں۔ ملک کی اندرونی حالات کے حوالے یہ امر اہم ہے کہ صوبوں کی صورتحال وہ نہیں جو نواز حکومت کے پہلے دور میں تھی۔ بلوچستان بہت زیادہ گرم ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اسکے علاوہ قوم پرستی کی تحریک  نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں ان صوبوں کو اب مزید محرومیوں میں نہیں رکھا جاسکتا۔ان کو نہ صرف ان کے وسائل اور ذرائع  کا حق دینا پڑے گا بلکہ ان کو ہر سطح پر اور ہر حوالے سے فیصلہ سازی میں شامل رکھنا پڑے گا۔اب صورتحال کو  تیکنکی طور پر ہینڈل کرنے کا زمانہ نہیں رہا۔ 
مجموعی طور پرضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ازسرنو تعریف بنائی جائے۔ یہ لگ بھگ اس طرح کی صورتحال ہے جومشرقی پاکستان کی علحدگی کے بعد پیدا ہوئی تھی۔اور ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کی از سرنو تعریف پیش کی اور اسکو دنیا میں منوایا بھی۔ بھٹو یہ سب کچھ اس وجہ سے بھی کر پائے کہ ان کے ساتھ پنجاب تھا۔ نواز شریف کو بھی یہ سنہری موقعہ حاصل ہے۔ پنجاب  ان کے ساتھ ہے۔ اس لیے نواز حکومت ملکی سطح پر خواہ خارجہ پالیسی میں اہم فیصلے کر سکتی ہے۔ 
ملک میں دو ادارے بہت ہی زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ یہ صورتحال آج سے 14 سال پہلے نہیں تھی۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا طاقتور بن چکے ہیں۔نواز شریف کو پرنٹ میڈیا کنٹرول کرنے کا تو تجربہ ہے۔پرنٹ میڈیا  لیکن الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو کیسے ہینڈل کیا جائے یہ بہت بڑا سوال ہے۔ سوشل میڈیا نیپرویز مشرف اور الطاف حسین کے حوالے سے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا وسیع اور کثیر جہتی ہوگیا ہے۔ جس کو سیاسی مقبولیت کے بغیر کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ جب تک اس میڈیا میں کسی سیاسی جماعت کے اپنے کارکن موجود نہیں ہونگے تب تک اس کو نہیں سنبھالا جا سکتا۔ یہ کام کرایے کے لوگوں سے نہیں ہوسکتا۔ میڈیا کی طرح عدلیہ کا رول بھی بڑھ گیا ہے۔ س کی حیثیت مانیٹرنگ والی ہوگئی ہے۔ جو ہر حکومتی عمل پر نظر رکھے ہوئے ہے یہ عمل گورننس کا ہو یا پالیسی سازی ای قانون سازی کا ہو یا انتظامی وغیرہ۔ پہلے عدلیہ کی ایکٹوازم اس طرح سے نہیں تھی۔ نواز حکومت کا نوے والا دور تو ایسا تھا کہ عدلیہ پر حملہ کیا گیا تھا۔ اب عدلیہ ریاست کے ایک مضبوط ستون کے طور پر ہے۔ اب تو ہر چیز کے لیے عدلیہ کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو ان نئے حقائق سے آگاہ ہو ان کو سمجھ سکتی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بناسکتی ہو؟ فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ ان کے پاس وہی پرانی ٹیم ہے جس کے ساتھ انہوں نے دو مرتبہ حکومت کی تھی۔

نئے حقائق اور نواز حکومت - Jul 2, 2013

Tue, Jul 2, 2013 at 11:09 AM
نئے حقائق اور نواز حکومت
میرے دل میرے مسافر    سہیل سانگی 

انتخابات سے پہلے میاں نواز شریف ملک کی معیشت، معاشی و سیاسی صورتحال، خارجہ پالیسی وغیرہ کے بارے میں  بلند بانگ دعوے ک کئے تھے۔ کچھ وعدے کئے تھے۔ کچھ کرنے کچھ نہ کرنے کی بات کی تھی۔ مگر جو بجٹ دیا وہ عوام کی توقعات سے بالکل برعکس تھا۔اس بجٹ میں نواز شریف نہیں،وزیر خزانہ ہی  نظر آرہے تھے۔ یہی صورتحال سیکیورٹی پالیسی کے حوالے سے ہے۔ ان دو  اہم معاملات کے مطالعے سے پت دو باتیں عیاں ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ حکومتی پالیسیوں پر نواز شریف کی کمانڈ نہیں۔ کوئی اور ان معاملات کو دیکھ رہا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ بحران  کا تعلق ملک کے معاشی حالات اور دہشتگردی  یا سیکیورٹی کے معاملات  جو خارجہ پالیسی سے ہے۔ جن پر ہے۔گورننس کا اشو اہم ہے لیکن اسکا نمبر ان دو کے بعد آتا ہے۔ اگر حکومت ان دو معاملات کو ٹھیک کر لیتی ہے تو عام لوگوں کو رلیف مل جاتا ہے۔صرف گورننس کے ذریعے بہت کم رلیف مل سکتا ہے۔ 
دوسری بات یہ نظر آئے کہ میاں صاحب کو ملک کی موجودہ صورتحال کا  صحیح ادراک نہیں۔ وہ ملکی حالات کو12اکتوبر1999ع پر ہی دیکھ رہے ہیں۔ یعنی جہاں انہوں نے ملک کو چھوڑا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان 14 برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ علاقے کی صورتحال تبدیل ہوئی ہے۔میاں صاحب کے زمانے میں پاکستان امریکہ کے لیے غیر اہم بن چکا تھا۔ لیکن اس کے بعد نائین الیون کا واقعہ ہوا۔افغانستان اور عراق میں بہت کچھ تبدیل ہوا۔ پاکستان ایک بار پھر امریکہ کا ساتھی بنا اور اس نے امریکہ کی ایماء پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوا۔اب صورتحال یہ ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے واپس جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد اگرچہ افغانستان  اور علاقے میں پاکستان کا اہم رول بنتا ہے مگر امریکہ پاکستان کو یہ رول دینا نہیں چاہ رہا۔اس کے بجائے بھارت کو اہمیت دینا چاہ رہا ہے۔ افغانستان کے اندر امریکی کارروایوں کے نتیجے میں شدت پسندپاکستان کی طرف آگئے۔جہاں پر ن کے نصف درج گروپ کام کررہے ہیں۔ انکا ٹارگٹ اب صرف امریکہ ہی نہیں پاکستان بھی بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے واقعات میں پھنسا ہوا ہے۔ اور آئے دن کسی نہ کسی شہر میں واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کی اندرونی سیکیورٹی کا معاملہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ 14 سال کا عرصہ بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں ہمارے پڑوسی ممالک بھارت، چین، اور ایران کی پالسیوں اور ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔پاکستان  دس گیارہ سال سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے۔ لیکن اب یہ جنگ دلدل بن چکی ہے جس میں ہم پھنس چکے ہیں۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے ایک ویزن، چاہئے اور اتنی جرئت بھی۔مزید یہ کہ فیصلے کی قوت بھی۔اس صورتحال میں سیاست بازی نہیں چلے گی۔ بلکہ اس طرح کے فیصلے کی قوت جو برطانوی رہنماچرچل اور  فرینچ لیڈرڈیگال نیدکھائی تھی۔انہوں نے اپنا یا اپنی پارٹی کا سیاسی فائدہ دیکھے بغیر فیصلے کئے تھے۔ 
ملک کے اندر بھی سیاسی خواہمعاشی اور سماجی حوالے سے کئی نئے مظاہرسامنے آئے ہیں۔نئے حقائق نے جنم لیا ہے۔ اب نئے دور کے نئے چلینج ہیں۔ ملک کی اندرونی حالات کے حوالے یہ امر اہم ہے کہ صوبوں کی صورتحال وہ نہیں جو نواز حکومت کے پہلے دور میں تھی۔ بلوچستان بہت زیادہ گرم ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اسکے علاوہ قوم پرستی کی تحریک  نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں ان صوبوں کو اب مزید محرومیوں میں نہیں رکھا جاسکتا۔ان کو نہ صرف ان کے وسائل اور ذرائع  کا حق دینا پڑے گا بلکہ ان کو ہر سطح پر اور ہر حوالے سے فیصلہ سازی میں شامل رکھنا پڑے گا۔اب صورتحال کو  تیکنکی طور پر ہینڈل کرنے کا زمانہ نہیں رہا۔ 
مجموعی طور پرضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ازسرنو تعریف بنائی جائے۔ یہ لگ بھگ اس طرح کی صورتحال ہے جومشرقی پاکستان کی علحدگی کے بعد پیدا ہوئی تھی۔اور ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کی از سرنو تعریف پیش کی اور اسکو دنیا میں منوایا بھی۔ بھٹو یہ سب کچھ اس وجہ سے بھی کر پائے کہ ان کے ساتھ پنجاب تھا۔ نواز شریف کو بھی یہ سنہری موقعہ حاصل ہے۔ پنجاب  ان کے ساتھ ہے۔ اس لیے نواز حکومت ملکی سطح پر خواہ خارجہ پالیسی میں اہم فیصلے کر سکتی ہے۔ 
ملک میں دو ادارے بہت ہی زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ یہ صورتحال آج سے 14 سال پہلے نہیں تھی۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا طاقتور بن چکے ہیں۔نواز شریف کو پرنٹ میڈیا کنٹرول کرنے کا تو تجربہ ہے۔پرنٹ میڈیا  لیکن الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو کیسے ہینڈل کیا جائے یہ بہت بڑا سوال ہے۔ سوشل میڈیا نیپرویز مشرف اور الطاف حسین کے حوالے سے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا وسیع اور کثیر جہتی ہوگیا ہے۔ جس کو سیاسی مقبولیت کے بغیر کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ جب تک اس میڈیا میں کسی سیاسی جماعت کے اپنے کارکن موجود نہیں ہونگے تب تک اس کو نہیں سنبھالا جا سکتا۔ یہ کام کرایے کے لوگوں سے نہیں ہوسکتا۔ میڈیا کی طرح عدلیہ کا رول بھی بڑھ گیا ہے۔ س کی حیثیت مانیٹرنگ والی ہوگئی ہے۔ جو ہر حکومتی عمل پر نظر رکھے ہوئے ہے یہ عمل گورننس کا ہو یا پالیسی سازی ای قانون سازی کا ہو یا انتظامی وغیرہ۔ پہلے عدلیہ کی ایکٹوازم اس طرح سے نہیں تھی۔ نواز حکومت کا نوے والا دور تو ایسا تھا کہ عدلیہ پر حملہ کیا گیا تھا۔ اب عدلیہ ریاست کے ایک مضبوط ستون کے طور پر ہے۔ اب تو ہر چیز کے لیے عدلیہ کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو ان نئے حقائق سے آگاہ ہو ان کو سمجھ سکتی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بناسکتی ہو؟ فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ ان کے پاس وہی پرانی ٹیم ہے جس کے ساتھ انہوں نے دو مرتبہ حکومت کی تھی۔