Thu, Jul 18, 2013 at 10:59 AM
ساتویں مالیاتی ایوارڈ سے پیچھے ہٹنے کی تیاریاں
میرے دل میرے مسافر
سہیل سانگی
ابھی اٹھارہویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمدکا انتظار تھاکہ اسلام آبادسے یہ کوشش شروع ہو کر رہے ہیں کہ اس ترمیم کے تحت بعض محکموں اور وسائل کی مرکز سے صوبوں کو منتقلی کسی طرح سے روک دی جائے۔ اور ساتویں مالیاتی ایوارڈ کو تبدیل کیا جائے۔ایسا کیوں کیا جارہاہے؟ سندھ میں یہ سوال کیا جارہا ہے۔ اسکی وجہ ایک مرتبہ پھر وفاقی اداروں میں پنجاب کی اجارہ داری کی حد تک بالادستی ہے یا وفاق اپنی پرانی سوچ پر اتر آیا ہے۔یا کوئی تیسرا سبب ہے۔کچھ بھی ہو یہ کوششیں کوئی اچھا شگون نہیں۔
پاکستان میں بعض حلقے اس صورتحال کو سیاسی مظہر قرار دے رہے ہیں۔ اختیارات اور وسائل کی مرکز سے صوبوں کو منتقلی صرف پاکستان کا مظہر نہیں۔ انڈیا میں بھی مرحلہ وار ایسا کیا گیا ہے۔ جہاں اگرچہ پہلے ہی صوبوں کو زیادہ اختیارات تھے۔ دراصل یہ بدلے ہوئے حالات میں وقت کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد اور لاہور کے کچھ تھنک ٹینک اخباری کالموں اور سرکاری حلقوں میں یہ مہم چلا رہے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو بہت زیادہ اختیاراتا ور وسائل دے دیئے گئے ہیں۔ اگر مکمل طور پر عمل کیا گیا تو وفاق کے پاس نہ اختیارات بچیں گے اور نہ ہی وسائل۔ ان حلقوں کی یہ بھی دلیل ہے کہ وفاق کی لسٹ جو مشترکہ مفادات کی کونسل کے دائرے میں دی گئی ہے اس سے اس ادارے کی الگ بادشاہت قائم ہوگئی ہے۔ اس سے اس ادارے میں ہمیشہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان دنگل رہے گا۔ ان حلقوں کو اٹھارہویں ترمیم اور مشترکہ مفادات کی کونسل کا رول کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ مگر اس ترمیم کو ختم کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ آئینی معاملہ ہے۔ اب ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ پروسیجرل طریقے سے کچھ چیزوں کو تبدیل کریں کچھ کو روکیں۔ ان حالات میں مشترکہ مفادات کی کونسل اور اسکے ممبران کی رائے، صلاحیت اور اہلیت کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
عملی طور پر مشترکہ مفادات کی کونسل کی تصدیق یا منظوری کے بغیرپاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے مجوزہ قرضہ حاصل نہیں کرسکتا۔نواز شریف حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت یہ ادارہ پاکستان کو 5.3 ارب ڈالر کا قرضہ دے گا جس سے مالی بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان کی ضمانت ہو جائے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ قرضہ پرانا قرضہ اتارنے کے لیے لیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظوری سے پہلے پاکستان کو بعض شرائط پوری کرنی ہیں اور یہ شرائط مشترکہ مفادات کی کونسل کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
آئی ایم ایف کا خیال ہے یا اسلام آباد نے اسے بانور کرایا ہے کہ ساتویں این ایف سے ایوارڈ کے بعد وفاق کے پاس مالی اختیارات اور مالی وسائل نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ مالی ضابطہ(فنانشل ڈسپلن)بھی نہیں قائم کرسکتا۔ اس لیے آئی ایم ایف اس سے معاہدہ نہیں کرسکتا۔اس لیے عالمی مالیاتی ادارہ چاہتا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل یہ وعدہ کرے۔ یعنی وفاقی حکومت جو معاہدہ کر رہی ہے اس کی تصدیق کرے۔
آئی ایم ایف کے نئے شرائط میں مالی ڈسپلن، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، صوبوں کو اپنے مالی وسائل پیدا کرنا، فضول اخراجات اور کم ترجیح والے منصوبے ختم کرنا اور وسائل کی عدم مرکزیت کے لیے مضبوط فریم ورک جوڑنا شامل ہے۔
اس آپشن کے وکیل کہتے ہیں کہ ساتویں این ایف سی یوارڈ کی بڑی خامی یہ ہے کہ یہ بڑے سطح پر معاشی استحکام نہیں لاسکتا۔چونکہ مرکز کے پاس وسائل کم ہیں تو اسکا رول مالی استحکام میں بھی کم بنتا ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام تب تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک مالی استحکام نہیں قائم ہوگا۔مالیاتی کنٹرول درست نہیں ہوگا۔
تعجب کی بات ہے کہ کبھی عالمی ادارے کہتے ہیں کہ اختیارات اور وسائل کی مرکزیت ختم کرو۔ اور یہ دونوں چیزیں بلکل نچلی سطح پر منتقل کرو۔اس کے لیے لمبے چوڑے دلائل دیئے جاتے رہے ہیں اور متعلقہ اداروں کے افسران کی ٹریننگز بھی کی جاتی رہی ہیں اور ان کی سوچ بھی تبدیل کی جاتی رہی ہے۔ اب کہا جارہاہے کہ واپس مرکزیت لے آؤ۔ اور یہ بھی کہ وسائل کی منتقلی بہت زیادہ اور بہت تیز ہوئی ہے۔ آئیڈیا یہ ہے کہ مجموعی طور پر مالی خسارہ کم کیا جائے اور مالی ضابطہ نافذ کیا جائے۔ صوبوں کو فیصلے میں شامل کرنا اس لیے بھی ضروری کہ واسئل ان کے پاس ہی ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تومرکز اکیلاکچھ نہیں کرسکے گا۔
یہ دلیل بھی دی جاتی رہی ہے کہ موجودہ مالیاتی ایوارڈ کی موجودگی میں ملک میں مالی ڈسپلن قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا آئی ایم کی شرائط پوری کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ قرضہ نہیں ملے گا۔
2010ع سے لاگو این ایف سی ایوارڈ کے بعد بڑی لیول پر معاشی استحکام صوبوں کی ذمہ داری بن گئی ہے۔چونکہ وسائل ان کو منتقل کردیئے گئے ہیں۔ اب صوبائی حکومت کی مدد اور حمایت کے بغیروفاقی حکومت روینیو کا ٹارگیٹ حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے آئی ایم ایف کے معاہدے کی مشترکہ مفادت کی کونسل سے منظوری ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں صوبوں کی منظوری یا رضامندی ضروری ہے۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت2010میں صوبوں کو 56 فیصد اور 2011-12 میں 57.5فیصد وسائل ملے۔
صوبوں پر یہ بھی الزام ہے کہ اتنے وسائل انکو دیئے گئے ہیں ان وسائل کو سنبھالنا اور ٹھیک سے استعمال کرنے کی ان میں اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ صوبوں کے پاس مالی ڈسپلن قائم کرنے کا مکینزم بھی مضبوط نہیں۔ لہٰذا وسائل کے زیاں کا اندیشہ ہے۔
اہلیت، صلاحیت یا مالی ڈسپلن کی بات صحیح بھی ہوسکتی ہے۔ اگر سندھ کا تجربہ سامنے رکھیں۔ صوبائی بیوروکریسی میں حکومت نے سفارشی اور اقربا پروری کی بنیاد پر ایسے افسران فیصلہ سازی اور عمل درآمد کی کلیدی پوزیشنوں پربٹھائے ہیں جن میں نہ پروفیشنلزم ہے، نہ تجربہ اور اہلیت۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ چارون چیزیں سیکھنے یا حاصل کرنے کا جذبہ بھی نہیں۔ اس کے برعکس یہ صرف مال سمیٹنے کے لیے آئے ہیں۔ صوبائی حکومت سیاسی مصلحت کے بے وزن دلیل کا شکار ہے۔ جس نے پورے صوبے کے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے آؤٹ آف ٹرن ترقیاں، تقرر، نان کیدر کو کیڈر میں ضم کرنے اور سندھ سول سروسز رولز میں تبدیلی اس بات کی گواہی دیتی ہے۔
گزشتہ تین سال کے دوران سندھ حکومت وسائل کے ہوتے ہوئے بھی سالنہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص رقم کا پچاس فیصد بھی خرچ نہ کرسکی۔دیکھا جائے تو حکومت کے دوستیاں نبھانے اور میرٹ کو کچلنے کے اقدامات اب صوبائی خودمختاری، اور صوبوں کے وسائل کی منتقلی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انیس بیس دوسرے صوبوں میں بھی یہ صورتحال ہوگی۔
معیشت دانوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت بے پناہ وسائل ملنے سے صوبوں میں اپنے وسائل پیدا کرنے اور مالیاتی ضابطہ قائم کرنے کی خواہش اور مجبوری دونوں ختم ہو گئی ہیں۔ اب صوبے اپنے وسائل پیدا نہیں کر رہے ہیں۔اور وفاق سے ملنے والے حصے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔
منصوبہ بندی کے وفاقی ماہرین کا خیال ہے کہاین ایف سی ایوارڈ مالی بے ضابطگیوں اورmacroلیول کے معاشی عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ جس کو سنبھالنا مشکل ہ و رہا ہے۔ممکن ہے کہ ایسا ہو۔ مگر یہ سب عبوری دور ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرے کا اس کا میکنزم پیدا ہوگا۔ جب وسائل آئیں گے تواس کو استعمال کرنے یا سنبھالنے کی اہلیت اور تجربہ آئے گا۔دیکھاجائے تو یہ معاملہ گورننس سے منسلک ہے۔چونکہ مجموعی طور پر گورننس کی حالت خراب ہے اس مالیاتی شعبہ بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔ لہٰذا یہ قرار دینا غلط ہوگا کہ این ایف سی ایوارڈ معاشی ضابطے یا معاشی استحکام سے ٹکراؤ میں ہے۔
لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ضمانت والے قرضے کی آڑ میں اٹھارہویں ترمیم سے پیچھے ہٹنے اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کرنے کے جتن کئے جارہے ہیں اور ایک بار پھر غیر محسوس طریقے سے مرکزیت کو بحال کیا جارہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف کی فرمائش نہ ہو اور وفاقی بیوروکریسی نے آئی ایم ایف کو اس طرح کی تصویر دکھائی ہو، جس کے بعد اس معاملے کو اٹھایا جارہا ہے۔
اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ صوبوں کے پاس capacity نہیں۔ بات یہ ہے کہ جب ان کو وسائل ملیں گے تو اپنے پاس گنجائش اور صلاحیت دونوں پیدا ہونگی۔ اس صورتحال کی آڑ میں صوبوں سے وسائل اور اختیارات چھیننا پہیئے کو پیچھے دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔